14 جولائی 2025 - 11:55
چین-ایران کے پانچ منصوبے جو امریکہ کو نہتا کرکے رکھ دیں گے

ایران اور چین کے اقتصادی تعاون، خاص طور پر نقل و حمل کے شعبے میں، دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو نئی شکل دے سکتا ہے اور خطے اور دنیا میں ان کی اقتصادی طاقت میں اضافہ کر سکتا ہے، جو امریکہ کی جارحیت کے خلاف ایک ڈھال ثابت ہوگا۔

بین الاقوامی خبر ایجنسی اہلبیت (ع) ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، ایران اور چین، ـ جن کے درمیان گہرے تاریخی اور تہذیبی تعلقات ہیں (جیسے 2000 سالہ شاہراہ ریشم پر تعاون)، ـ نے حالیہ برسوں میں توانائی، انفراسٹرکچر، تجارت، ٹیکنالوجی اور مشترکہ سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں اہم پیش رفت کی ہے۔ عالمی تبدیلیوں، جیوپولیٹیکل حقائق، ٹرمپ کی امریکی صدارت، اور ایران اور صہیونی ریاست کے درمیان 12 روزہ جنگ نے دونوں ممالک کے درمیان مزید قریبی تعاون کی راہ ہموار کی ہے۔

تہران میں نے چینی سفیر نے آج ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم ایران کے ساتھ مل کر ایک زیادہ لچکدار عالمی معیشت بنانے کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)، برکس، اور دیگر کثیرالجہتی فورمز کے تحت "بیلٹ اینڈ روڈ" تعاون، اقتصادی اور تجارتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور بین الاقوامی شراکت کے ذریعے ایک مضبوط معیشت بنانے کے لئے ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین، جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور جس کا ایران سے کوئی تاریخی تنازع نہیں رہا ہے، کو ایران کی خارجہ پالیسی میں نظرانداز کیا گیا ہے۔ اگر دونوں ممالک نے مشترکہ مفادات پر مبنی اسٹریٹجک منصوبے بنائے ہوتے، تو شاہراہ ریشم کا دور دوبارہ زندہ ہو سکتا تھا۔

فی الحال، ایران اور چین کا اقتصادی تعاون بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2021 میں دستخط ہونے والے 25 سالہ جامع معاہدے نے تعاون کے نئے راستے کھول دیے ہیں۔

توانائی کے شعبے میں تعاون

ایران، جو تیل اور گیس کے سب سے بڑے پروڈیوسرز میں سے ایک ہے، اور چین، جو توانائی کا سب سے بڑا صارف ہے، کے درمیان اس شعبے میں گہرے مشترکہ مفادات ہیں۔ چین گذشتہ کئی برسوں سے ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے، اور یہ تعاون طویل مدتی معاہدوں کے تحت جاری ہے۔ ایران چینی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر تیل اور گیس کے شعبے میں اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتا ہے۔ امریکہ کی پابندیاں بھی اس تعاون کو ختم نہیں کر سکی ہیں۔

تجارتی رجحانات

گذشتہ دہائی میں ایران-چین تجارت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جو تیل، پیٹروکیمیکلز اور زرعی مصنوعات درآمد کرتا ہے، جبکہ ایران چین سے مشینری، الیکٹرانک آلات اور صنعتی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔

پانچ کلیدی منصوبے جو امریکہ کو بے اثر کر دیں گے

1۔ شہید رجائی بندرگاہ کی ترقی میں تعاون

چین کے لئے ایران کے جنوبی بندرگاہوں، خاص طور پر شہید رجائی بندرگاہ، میں سرمایہ کاری اہم ہے۔ گذشتہ دو سال سے اس بندرگاہ کے ساتھ ایران کے شپنگ اداروں کے اختلافات کے پیش نظر، طویل مدتی تعاون کے نئے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ چینی شپنگ کمپنیوں کی موجودگی سے اس بندرگاہ کو مغربی ایشیا کا اہم مرکز بنایا جا سکتا ہے۔

2۔ خلیج فارس-قشم پل کی تعمیر

یہ 2.2 کلومیٹر طویل پل ایران کے سب سے بڑے جزیرے قشم کو مین لینڈ سے جوڑے گا، جس سے مال اور مسافروں کی نقل و حمل آسان ہوگی۔ چین قشم کو خلیج فارس میں بحری جہازوں کے لئے ایک اہم مرکز کے طور پر ترقی دے سکتا ہے۔

3۔ چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو (BRI) میں ایران کا کردار

ایران BRI کے تحت دو اہم کردار ادا کر سکتا ہے:

  • چین-یورپ زمینی راستہ: یہ شاہراہ ریشم کی طرز پر تجارتی وقت کو 40 دن سے کم کر کے 15 دن کر دے گا اور ایران کو یوریشیا کا اہم ٹرانزٹ ہب بنا دے گا۔ یہ راستہ امریکہ کے کنٹرول والے آبی گذرگاہوں (جیسے مالاکا آبنائے اور سوئز کینال) سے دور ہوگا، جو پابندیوں اور فوجی دباؤ کے خلاف زیادہ مزاحمت کرسکتا ہے۔
  • چین-وسطی ایشیا-مغربی ایشیا راہداری: شہید رجائی بندرگاہ اور قشم کی ترقی اس منصوبے کا حصہ ہے۔

4۔ چین کا مغربی ایشیا سے مشرقی ایران کے راستے منسلک ہونا

امریکہ کے اثر سے دور زمینی رابطے کے دو راستے:

  • چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC): یہ 60 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔
  • افغانستان کے واخان راستے سے: چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ افغانستان کے راستے ایران سے رابطہ ایک منفرد امکان اور سہولت ہے۔

5۔ مشترکہ اقتصادی زونز کی ترقی

چین کے مالی اور تکنیکی تعاون سے ایران میں لاجسٹک پارکس اور اقتصادی زونز قائم کیے جا سکتے ہیں، جو ایران کو خطے میں مال کی پروسیسنگ اور تقسیم کا مرکز بنا دیں گے۔ اس سے نہ صرف روزگار اور آمدنی بڑھے گی بلکہ یہ خطے کو مغربی انفراسٹرکچر پر انحصار کم کرے گا۔

امریکہ کو کیسے نہتا کیا جائے گا؟

ان منصوبوں کے ذریعے ایران عالمی تجارت کا اہم مرکز بن جائے گا، جس سے امریکی پابندیاں اور دباؤ بے اثر ہو جائیں گے۔ چین بھی امریکہ کے زیر کنٹرول آبی راستوں پر اپنا انحصار کم کرکے اپنی توانائی اور تجارتی سلامتی کو یقینی بنا لے گا۔ یہ اسٹریٹجک شراکت نہ صرف امریکہ کے اقتصادی اور فوجی ہتھکنڈوں کو ناکام بنائے گی، بلکہ خطے کی جیوپولیٹکس میں ایک نیا توازن قائم کرے گی، جہاں ایران اور چین کلیدی کھلاڑی ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha